English | Urdu | Turkish | Bahasa Indonesian

اظہار تشکر

میں اپنے اہل علم احباب، ڈاکٹر اسامہ الاعظمی، ڈاکٹر صفروق چودھری، ڈاکٹر سہیل حنیف، پروفیسر شرمین جیکسن، شیخ امین خولوادیہ، مولانا ڈاکٹر ہارون سیدات، مبین وید، اور شیخ شعیب وانی کا بے حد مشکور ہوں، جنہوں نے اس مضمون کا پہلا مسودہ پڑھا اور اپنی قیمتی تجاویز سے نوازا، جن آراء  کا میں نے اظہار کیا ہے اور جو کوتاہیاں رہ گئی ہیں، ان کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔  اس کے علاوہ میں اپنی امیٹکس ٹیم کا بھی مشکور ہوں جن کے ساتھ مسلسل علمی بحث و تکرار نے مجھے ان خیالات کو مرتب دینے میں نہایت مدد کی۔

 

تعارف

آج کے پر فتن دور میں جہاں مسلمانوں کے وجود کو بے شمار خطرات کا سامنا ہے وہاں ان کے سامنے بے پناہ مواقع بھی موجود ہیں۔ ان خطرات سے نجات کا واحد حل ایک امت ( اس تصور کےلیے ہم نے امیٹکس کی اصطلاح متعارف کی ہے) بننے میں پوشیدہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا  رب ہوں، لہذا میری عبادت کرو (سورۃ الانبیاء: 92؛ سورۃ المؤمنون: 52)۔ ہمارا سب سے بڑادشمن بیرونی یا خارجی  نہیں بلکہ ہماری کمزور ذہنی وتخلیقی صلاحیت  اور کمزورقوت ارادی ہے،  اور ہماری سوچی سمجھی بے بسی ہی ہمیں خدا اور اس کی دنیا کا تعارف کرانے میں مانع ہے۔ ہم بحیثیت امت نوع انسانی کو  اس کے  بدترین دشمن ، یعنی خود پرستی اور خود فریبی  سے بچانے اور ٱللَّٰه کی طرف لوٹانے کےلیے ٱللَّٰه کی دین کی دعوت کی صورت میں بہت بڑا سرمایہ رکھتےہیں۔  اگر لوگوں  کے ہاتھ ہمارے خون سے لت پت ہوں اورہم ان کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا رہے ہوں اور نتیجتا ہم ایک طرف غم و غصے اور انتقام کے جذبے سے سرشار ہوں  اور دوسری جانب ناامیدی نے ہمیں آ گھیرا ہو تب بھِی ہمارے پیغمبر ﷺ کا حکم یہی ہےکہ دنیا کے سامنے ہدایت پیش کرو اور لوگوں کو راہ راست پر لاؤ۔ مسلمانوں کےدلوں میں اس ہمداردانہ جذبے کی قوت صرف اس صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے جب ہم احکام الٰہی اور سیرت رسولﷺ کی پیروی کریں۔ اس نصب العین کے حصول کےلیے مسلمانوں کو ایک بار پھر متحد ہوکر ایک امت بن کر ابھرنا ہوگا۔

یہ مضمون بنیادی طورپر امیٹکس اور اس تصور کے تحت وجود میں آنے والے انسٹی ٹیوٹ کے نصب العین کو واضح کرنے کےلیے لکھا گیا ہے۔ یہ امیٹکس پروجیکٹ کے مقاصد و اغراض اور اس سے جڑے بنیادی تصورات کو واضح کرنے والے مضامین کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔  اس مضمون میں ہم  امت کے اتحاداور  دین اسلام کی رو سے اس کی اہمیت کو واضح کریں گے، جو مسلمانوں پر عائد کردہ کسی بھی  فریضے کی تکمیل کےلیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے ، چاہے وہ فریضہ کتنا ہی کھٹن اور مشکل کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد یہ مضمون احیاء اور تجدید جیسے بنیادے اسلامی تصورات اور علماء و اکابرین اور عام افراد کے درمیان فہم اور نصیحت کی روشنی میں امت کی مرکزی حیثیت کو بیان کرنے کے بعد اس اتحاد کی مختلف جہتوں کے کو تصوراتی طور پر پیش کرتا ہے۔

امیٹکس انسٹیٹیوٹ جس کے ابتدائی دنوں میں ہی عالمی سطح پر ایک کثیر تعداد میں مسلمان اہل علم اور ماہرین اس سے منسلک ہو چکے ہیں، مستقبل قریب کیلئے اسکا تحقیقی پروگرام درج ذیل باہم مربوط اہداف پر مشتمل ہے:

(1) عالمی سطح پر مسلم اہل علم اور ماہرین کی ایک کثیر تعداد تک اپنا پیغام پہنچانا اور ان کو اس اجتماعیت سے منسلک کرنا

(2) مسلم فکر، روایات، اور تحریکوں اور مسلمان معاشروں کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ سماجی سائنسی اور انسانی علوم کی روشنی میں علمی اور تکنیکی شعبوں میں ترقی کرنا ۔

(3) دور جدید کی تکنیکوں اور ٹیکنالوجی اور مسلمانوں کے موجودہ وسائل اور عالمی روابط کو بہترین انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ان مسائل کا فکری حل اور اس کے لیے درکار ٹھوس پروگرام مرتب کرنا ۔

 اس سلسلے کے اگلے مضامین میں ہم اس پروگرام کومزید وضاحت کے ساتھ پیش کریں گے، جن میں مسلمانوں کے اتحاد  پر اٹھائے جانے والے اعتراضات  بھی رفع کیے جائیں گے۔

اس مشن کے واضح اہداف اور دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے  ہم چند امور کی تنقیح ضروری سمجھتے ہیں۔  ہم نہ صرف جرات مندانہ فکر و عمل اور روایتی اور عصری علوم  میں مہارت پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ اسلام کے ماضی اور حال کے عظیم علما ء اور احیا کے فکری تسلسل کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم ہرگز کسی کی جگہ لینے کی کوشش میں  نہیں، نہ خود کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں، بلکہ امیٹکس کے تحت مختلف شعبوں میں مسلمان اہل علم اوراہل حل و عقد کی پہلے سے چلے آنے والی کوششوں میں ان کے معاون اور مددگار بننا چاہتے ہیں ۔

مسلمان معاشرے کا ہر فرد اور گروہ اپنے اپنے دائرے میں امت کیلئے جو سرگرمی بھی انجام دے رہا ہے وہ امت کہ احیا کیلئے نہاہت اہمیت کی حامل ہے:  والدین اپنے بچوں کو ایمان کی دولت سے روشناس کراتے ہیں، مائیں بچوں کو سبق آموز لوریاں سناتی ہیں، ائمہ مساجد قرآن کو درست پڑھنا سکھاتے ہیں، علماء اور مبلغین اسلام کی تبلیغ اور اسکا دفاع کرتے ہیں، مسلمان سائنسدان، کاروباری حضرات اور مفکرین غرض سب اپنے اپنے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ہم عصری اسلامی ڈسکورس میں ایک اہم کمی کو پُر کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ایک فکر انگیز انقلاب کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جس بے بسی، فرسودگی اور شکست خوردگی نے بہت سے مسلمانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا ہے ہم اس کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔

ہم مسلم اتحاد کے ذریعے مسلمانوں کے احیاء کےلیے پرعزم ہیں اور اس نظریے میں غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔ اس ذمن میں، ہم کسی مخصوص نسخے اور طریقے یا محض کسی خیالی منصوبے پر اکتفا نہیں کررہے بلکہ ہم مسلمانوں کو عالمی سطح پر متحد اور منظم کرکے مسلم تہذیب کے احیا کی ایک سنجیدہ کوشش کرنا چاہتے ہیں۔

 

امیٹکس کیا ہے؟

امیٹکس سے مراد  امت مسلمہ کے اجتماعی اموراور اس کے متعلقات ہیں۔ امت قرآنی اصطلاح ہے، جو ٱللَّٰه کے آخری رسولﷺ کے پیروکاروں کےلیے استعمال کی گئی ہے، اس جماعت کو قرآن نے  “انسانیت کی فلاح کےلیے بہترین جماعت” قرار دیا ہے۔ (سورۃ آل عمران: 110)۔ ٱللَّٰه نے اس جماعت کو ” معتدل جماعت” کے لقب سے نوازا ہے۔ (سورۃ البقرہ: 143)۔  جسے ٱللَّٰه کی رسی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورۃآل عمران: 103) اور انسانیت کو بھلائی اور نیکی کی طرف بلانے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ رسول ٱللَّٰهﷺ کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو امیٹکس اپنی ظاہری صورت میں سیاسۃ الامۃ کے مترادف ہے۔1 اس وجہ سے امیٹکس اسلامی سیاست کےلیے موزوں اصطلاح ہے۔ اس بنا  یہ ہمارے تصورات، عقائد اور عملی طور طریقوں کےلیے ایک جامع اصطلاح (umbrella term)ہے، جس کے ذریعے امت اور اس کاالوہی مشن واضح اور ظاہر ہوتا ہے، اس کی یکجہتی کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اور اس کے سماجی، سیاسی، اخلاقی اور مذہبی امور کےحل کا انتظام کیا جاتا ہے۔

امیٹکس امت کے لیے ایسے ہی ہے جیسے politics (سیاست) کےلیے polis ( پولس ) ۔ یہ نئی اصطلاح کیوں وضع کی گئی اور محض اسلامی سیاست ہی  پر ہی اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟2

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تصورات کو واضح اور مبہم بنانے،  دونوں کےلیے الفاظ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں    .ارسطو کی وضع کردہ اصطلاح پالیٹکس (politics) سے مراد شہر (polis) کے اجتماعی امور اور ان کا انتظا م ہے، جبکہ دور جدیدمیں سیاست سے مراد جغرافیائی سرحدوں میں قید قومی ریاست لیا جاتا ہے ۔3

قرآن و سنت اور ہمارے ائمہ کرام حکومت و سلطنت کے بنیادی تصورات جیسے خلافت، امامت امت کی حکمرانی ، حکمران اور رعایا کے حقوق اور فرائض کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سیاست کی اصطلاح جن معنوں میں استعمال کرتے ہیں، یہ لفظ اپنے روایتی استعمال میں ان تمام جہتوں کا احاطہ نہیں کرتا۔  ان کا ڈسکورس  سرحدوں ، قومی مفادات اور محض دنیاوی معاملات  تک محدود نہیں رہتا  بلکہ وہ اس کو امت مسلمہ کے مشن، اخلاقی خصوصیات اور اخروی نجات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔  اس مشن کی تکمیل کےلیے امت مسلمہ کا حکمران کوئی ایسا فرد ہونا چاہیے جو رسول ٱللَّٰهﷺ کے نائب (خلیفہ) کی حیثیت  سے مسلمانوں کےمعاملات چلانے کے قابل ہو۔

اس موضوع پر تمام مصنفین کی متفق علیہ تعریف کو یہاں پیش کرنا ضروری ہے ، خلیفہ نبیﷺ کا نائب ہوتا ہے، جو اس کی امت کے دینی اور دنیاوی امورکی حفاظت کرتا ہے اور اسے بہترین طریقے سے چلاتا ہے۔4

لغوی لحاظ سےلفظ امہ سے مراد ایک اجتماعیت یا برادری ہے جس کا کوئی مقصد5ہو اور اس کی قیادت ایک امام کرتاہو۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امام اور امیر المومنین کے الفاظ خلیفہ کے مترادف ہیں۔6

قوم پرستی اور قومی ریاست کے اس دور میں مختلف اصطلاحات کی  مسلسل سیکولرائزیشن کے باوجود اسلامی ڈسکورس میں امۃ (یا امت) یا ملۃ (ملت) جیسا بنیادی تصور نہ تو کسی خاص علاقے میں آباد قوم، جیسے پاکستانی، مصری، سعودی، نائجیرین، یا مالائی، کیلئے صرف استعمال ہوتا ہے ، نہ  ہی تمام انسانوں  کی جماعت،  یا صرف مشرق کے باسیوں یا مظلوم و محکوم افراد کیلئے بولا جاتا ہے بلکہ یہ خالصتا انسانوں کے اس گروہ کیلئے مستعمل ہے جو ٱللَّٰه اور اس کے آخری رسول پر ایمان لانے کے بعد ایک اجتماعیت میں داخل ہو جاتے ہیں جسکا نام امت مسلمہ ہے ۔ ان اصطلاحات کی اہمیت اس چیز سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ آج مسلمانوں کی بیشتر ممالک میں استبدادی طرزِ حکومت قائم ہے، جن پر ایک مخصوص اشرافیہ  کا قبضہ ہے اور جو محض اپنے مفادات اور اپنے مغربی آقاؤں کے ساتھ وفاداری نبھانے  کو سب سے مقدم رکھتے ہیں ۔ اس اشرافیہ نے پچھلی صدی میں مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے،انھیں  برین واش کرنے اور اسلام سے دور  کرنے کی بھر پور  کوشش کی ہے، انھوں نےہمارے مسلمان بھائیوں،  ہمارے علماء اور قائدین کا کھلے عام  قتل عام کیا اور گمراہ کن نظریات کے ذریعے مسلمانوں کے دینی علم و  ثقافت کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی ۔  ہمارے اداروں کومغرب کے سامنے زیر کیا، اسلامی عقائد کو بگاڑا،بالخصوص ہمارے دینی رسم الخط کو تبدیل کیااور بنیادی اسلامی تصورات کے معنی  و مفہوم کو یکسر تبدیل کرنے کی کوششیں کیں۔7

دشمن نے اہل علم اور دانشوروں کو خرید کر اور یا پھر مایوسی کا شکار کر کے جزبہ مسلمانی کو پست کرنے یا مسلمان کی حیثیت سے جینے سے نا امید کرنے کی ایسی چال چلی ہے کہ جب دنیا کی باقی قومیں چاند تک پہنچ گئ ہیں اور اب ستاروں تک پہنچ رہی ہیں عین اسی وقت مسلمان معاشروں میں عوام ابھِی تک اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں اورجاپانی کہاوت کے مصداق مسلمان کنویں کے مینڈک کی طرح سمندر کے وجود سے انکاری ہیں ۔  بہرحال ٱللَّٰه کے حکم سے اور ہمارے علمائے کرام، اکابرین اور شہدا کی کاوشوں اور  دین کے تحفظ اور احیاءکے لیے مسلمانوں کی متعدد تحریکوں کی کوششوں سے دشمن کچھ معرکوں میں چاہے جیت چکا ہو، لیکن اسکی ہار یقینی ہے۔

یاد رکھیں امیٹکس  کا  مقصد سیکولر سیاست کی طرح محض وسائل  کا انتظام اور تقسیم نہیں ہے بلکہ اقامت دین  اور زمین کے انتظام اور انصرام کو آسان بنانا ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، اتفاق اور یکجہتی قائم ہواور تمام بنی آدم خدائی منشا کے مطابق انصاف اور خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ علمی لحاظ سے امیٹکس اسلامی عقیدے کے متعدد پہلؤوں کا احاطہ کرتا ہےجن میں فقہ ، اخلاقیات اور مسلمانوں  کے اجتماعی معاملات شامل ہیں۔  نیز اس میں  الاحکام السلطانیہ (حکمرانی سے متعلق شرعی قوانین) اور السیاسہ الشرعیہ (شریعت کی طرزِ حکمرانی)  جیسے  قدیم  اور سیاسیات، سماجی اور بشری علوم جیسے جدید موضوعات بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف امیٹکس روایتی سیاست کی نفی بھی نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے کسی کو روکتا ہے،  بلکہ صرف اس کی ترتیب اور انداز  درست اور تبدیل  کرنے کی کوشش کرتا ہے ،مثال کے طور پر جیسے شادی کا اسلامی تصور مقامی روایت اور ثقافت کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کو ایک قاعدے اور مقصد کا پابند بناتا ہے اس رو سے امیٹکس نہ امت کے اتحاد کو علاقائی سرحدوں تک محدود رکھتا ہے اور نہ ہی یہ مختلف لوگوں  اور ثقافتوں کے درمیان تنوع اور  رسوم و رواج  اور مقامی طور طریقوں  کی نفی کرتاہے ۔ امیٹکس ایسی عالم گیریت پر یقین رکھتا ہے جس میں مخصوص شناختوں کو ختم کرنے کی بجائے ایسی تمام مقامی شناختوں کی گنجائش موجود ہے، جن کی شریعت نے اجازت دی ہے۔  اسلام بعض مخصوص   شناختوں کی گنجائش دیتا ہے، بعض صورتوں کو محدود کرتا ہے اور بعض قسموں کی حوصلہ شکنی اور ممانعت کرتا ہے۔

ایک دفعہ امیٹکس اصولاً بطور شناخت قائم ہوجائے تو  پھر موازنہ اور مقابلہ کر کے دیگر نظاموں کے تجربے  سے محتاط اور بامقصدفائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مسلمان جن علاقوں میں رہتے ہیں، وہاں کی سیاست میں وہ  عوام کی بہود اور فلاح کےلیے یقیناً شامل ہوسکتے ہیں، چاہے  وہ مسلمانوں کی سرزمین ہو یا غیر مسلموں کی۔تاہم امت کاحصہ ہونے کے ناطے ان کا سب سے پہلا اور اہم تعلق امت مسلمہ سے ہے  اور اسی لیے، ایمان کے ایک لازمی جزو کے طور پر، ان کی سیاست کو امیٹکس کے زیر اثر اور اسی تک محدود ہونا چاہیے۔

 

فکری بنیادیں

جس طرح فقہ اسلام کے عملی احکام سے وجود پزیر ہوا ہے، علم الٰہیات )علم کلام یا اصول الدین( عقل اور وحی کوہم آہنگ کرنے کےسلسلے کی کڑی ہے، اخلاقیات اور آداب، تزکیہ، سلوک اور تصوف اور روحیانیت کی ارفع منازل کے حصول کےلیے  ہے، ایسے ہی امیٹکس کو ٱللَّٰه کی طرف سے دیے گئے نصب العین کے حصول کےلیے اہل ایمان کی ایک متحد اور منظم جماعت کی تشکیل کے سلسلے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یہ تصورہمیں قرآن کی ان اساسی اور بنیادی قرآنی آیات تک رسائی دیتا ہے جو امت کی تشکیل اور سمت کا تعین کرتی ہیں۔

  1. پہلی آیت میں امت محمدیہ کو ایک معتدل جماعت اور شہات علی الناس کے فریضے کی ادائیگی جیسے پیغمبرانہ مشن کا حکم دیا گیا:

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک “امت وسط”8 بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔9

  1. درج ذیل آیت پہلی کے مفہوم کی تکمیل کرتی ہے اور اس پر مزید روشنی ڈالتی ہے ۔
  2. اس آیت میں امت مسلمہ کو ایک بہترین کے لقب سے نوازا گیا ہے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی ہے۔یہاں امت مسلمہ کے بہترین امت کے اعزاز اور مشن دونوں کو واضح کیا گیا ہے :

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور ٱللَّٰه پر ایمان رکھتے ہو۔10

  1. ٱللَّٰه نہ صرف ہمیں پیغمبرانہ مشن کی حامل امت کے اعزاز سے نوازتا ہے بلکہ اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم بھی دیتا ہے:

وٱعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواْ

سب مل کر ٱللَّٰه کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔11مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔12

  1. ایک اور آیت مسلمانوں کو برادری قرار دیتی ہے، جسے انھیں متحرک رکھنے کی تلقین کی گئی ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔13

  1. ایک اور آیت اہل ایمان کو متحد نہ ہونے پر متنبہ کرتی ہے:

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِى ٱلْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔14

پہلی دو اساسی آیات کئی اہم بنیادیں قائم کرتی ہیں۔  قرآن نے جن لوگوں کو امت محمدیہ کہہ کر مخاطب کیا ہے وہ بہترین امت ہے، جو منصف مزاج ہے، یہ امتیاز اس کو کسی نسل، نسب یا محض قسمت کی بنا حاصل نہیں ہوا، بلکہ اس بنا حاصل ہواہے کہ یہ امت لوگوں کو ٱللَّٰه کی طرف بلاتی ہے، نیکی کا حکم دیتی ہے  اور منکر سے روکتی کرتی ہے۔ اس امت کا مشن  ٱللَّٰه کے کارندے بن کر لوگوں کو اس کی طرف بلانا ہے، جس طرح رسول ٱللَّٰهﷺ بلاتے  تھے اور لوگوں کے  دلوں میں ٱللَّٰه کا خوف جاگزین کرتے تھے۔15اسی لیے اس امت کی غایت و مقصد بھی رسول ٱللَّٰهﷺ کے مشن کی کا تسلسل  ہے ۔

ان آیات مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور قرآن کا وژن عوامی  (community-centered)یا ummatic ہے کیوں کہ یہ کسی فرد، خاندان، نسل، قبیلہ، قوم  یا موروثی طور پر کسی خاص مذہبی جماعت کی بجائے ایک براداری کو پیغمبرانہ مشن تفویض کرتا ہے۔  اس پوری کمیونٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ اس مشن کو آگے بڑھانے کےلیے “اپنے درمیان سے”(سورۃ النساء: 59)ایک لیڈر کا انتخاب کرو اور اس کی اطاعت کرو۔  یہ آیات امت محمدیہ  کو زمین پر خدائی مشن کے کارندے قرار دیتی ہیں، نہ کہ محض احکام  کےغیر فعال  وصول کنندہ، جو محض احکام تو لیتے ہوں لیکن ان کی بجا آوری نہ کرتے ہوں ۔

مزید براں، امت ہونے کے ناطے، جو بذات خود بھی اچھی ہے اور اچھائی کی طرف بلاتی بھی ہے، اس پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک ذاتی خوبیوں سے متعلق ہے اور دوسری خارجی اور اجتماعی عمل سے متعلق ہے۔ پہلی ذمہ داری نبھانے کےلیے تقویٰ کا حصول، قرب الہی اور اطاعت الہی ، ایک دوسرے کو راہ راست پر لانے اور تذکیر  کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسری ذمہ داری ایک پیغمبرانہ مشن ہے جس کی ادائیگی کےلیے ایک مؤثر قیادت اور  تنظیم کی ضرورت ہے ۔ جب بھی افراد کو کوئی اجتماعی ذمہ داری سونپی جائے تو انھیں اپنے درمیان وسائل اور ذمہ داریاں تقسیم کرنی پڑتی۔ یہی بالعموم سیاست اور یہاں بالخصوص امیٹکس کیلئے ایک ضروری جز ہے۔ اگر کسی گروہ کا مقصدِ وجود محض بقا اور غیر فعال وجود نہ ہو بلکہ وہ دنیا کےلیے ایک فعال مشن کا حامل ہو تو اس کےلیے سیاسی پہلو مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور ایسے گروہ کا ایک اخلاقی ضابطہ اور اداراتی ڈھانچہ نہایت ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر ، اس پیغمبرانہ مشن کے دو پہلو ہیں، باطنی اصلاح کےلیے تقویٰ، خود احتسابی، دیانت داری اور اعلیٰ اخلاق جیسے اوصاف ، جب کہ ظاہری طور پر اجتماعی مشن کی تکمیل کےلیے، تحرک، اتحاد ویکجہتی، ہمت وعزم  اور سیاسی بصیرت جیسے اوصاف مرکزی حیثیت رکھتے  ہیں۔

اس کے بعد تین آیات (سورۃ آل عمران: 103؛ سورۃ آل عمران 105؛ سورۃ الحجرات؛ 10)  اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس مشن کےلیے نہ صرف مسلمانوں کا متحد ہونا ضروری ہے بلکہ اس کےلیے عملی اقدام بھی ضروری ہے۔ کسی بھی اجتماعی مشن کو انجام دیتے وقت ایک دوسرے کے ساتھ تعاؤن بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار عدم اتفاق کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے  باہمی اتفاق اور اتحاد، امن و سکون اور انصاف کےلیے ایسے مستقل مزاج کی ضرورت ہے کہ کسی قسم کا ناخوشگورا واقعہ رونما نہ ہو۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دینے (49:9،10) کا استعارہ نہایت جامع ہے، کیوں کہ بہن بھائی اپنےنسب سے،والدین میں کسی ایک یا دونوں کے اشتراک سے، تشخص پاتے ہیں، بعینہ مسلمانوں کو بھی دو شہادتوں (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور لوگوں کو حق کی طرف بلانا ان کا نصب العین ہے ) نے جوڑ رکھا ہے۔

 بہن بھائی مختلف شخصیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اور اسی انفرادیت کے تحت قدرت کے ایک نظام سے گزرتے ہوئے وہ بلوغت کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ اس سفر کے ہر موڑ پر جہاں وہ ایک دوسرے سے محبت و انس کے جزبے سے سرشار ہو کر ایک دوسرے کے دست و بازو بنتے ہیں وہیں وقتا فوقتا ایک دوسرے سے بجث اختلاف اور نزاع جیسے فطری مواقع انہیں دنیا کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔

اسی طرح جب مومنین بہن بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے جھگڑے اور اختلاف کرتے ہوئے ایک خاص حد کو پھلانگتے ہیں اور کسی نقصان یا برائی کا موجب بنتے ہیں تو، قرآن انہیں مومن اور بھائی کہتے ہوئے اس کا علاج کا بھی تجویز کرتا ہے کہ ظالموں کے خلاف امن و صلح کی خاطر ہمیشہ عادل جماعت کا ساتھ دو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ ٱللَّٰه کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ ٱللَّٰه انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (سورۃ الحجرات: 9)۔ اسی طرح ٱللَّٰه تعالی ہمیں مسلمانوں سے مایوس ہونے کے بجائے ان  سے پر امیدرہنے  اور ان کے درمیان امن قائم کرنے تلقین فرماتا ہےاور ساتھ یہ تاکید بھی کرتا ہے کہ مسلمانوں کے مابین اتحاد قائم کرنا محض ذمہ داری نہیں بلکہ اتحاد اور ہم آہنگی کےلیے یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ جو لوگ ماضی اور حال میں مسلمانوں کے آپسی لڑائی جھگڑوں کو ناامیدی اور مایوسی پر قیاس کرتے ہیں –)کہ مسلمانوں نے ہمیشہ لڑائیاں ہی لڑی ہیں اور ان سے کسی خیر کی امید نہیں، وغیرہ(-  یا  نظام کو اپنے حال پر چھوڑنے (status quo)کےلیے بطور جواز پیش کرتے ہیں، وہ نہ صرف نادان ہیں بلکہ مذکورہ حکم الہی سے بھی غافل ہیں۔

آخری آیت (سورۃ الاعراف: 73)  اس مقصد کو مزید نمایاں کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ایسے اتحاد کی ضرورت ہے: اگر تم اکٹھے نہیں ہوتے، ایک صف میں کھڑے نہیں ہوتے اور مضبوط اتحاد نہیں بناتے، تو تمہارے سمیت پوری دنیا کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دشمنانِ دین، جیسا کہ سچائی کے ہمیشہ دشمن ہوتے ہیںِ،  مسلمانوں اور دین کے خلاف مضبوط اتحاد بنائیں گے۔یاد رکھیں ، جنگ بدر کے موقع پر نازل ہونے والی یہ مدنی آیت جنگ، امن اور سیاست جیسے امور  میں ایک عظیم اتحاد کی تاکید کرتی ہے، کیوں کہ جنگ میں یہ ساری چیزیں اکھٹی ہوجاتی ہیں۔

مزید برآں، یہ الفاظ  عالمگیر ہیں  اورزمانے کی قید سے آزاد  ہیں، جو  مسلمانوں پر عظیم اتحاد قائم کرنے کی ضرورت  کو واضح کرتے ہیں اورانھیں متنبہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اسے قائم کرنے میں ناکام رہے تو زمین میں عظیم فساد اور خونریزی ہو گی۔ اس طرح کے اتحاد کا مقصد صرف اپنی حفاظت کرنا نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب اور برادریوں کی حفاظت بھی مقصود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے “ہمارا رب ٱللَّٰه ہے” اگر ٱللَّٰه لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں ٱللَّٰه کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں ٱللَّٰه ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ٱللَّٰه بڑا طاقتور اور زبردست ہے (سورۃ الحج: 22)۔

کلام الله کی ان تاکیدوں کو رسول الله ﷺنے ایک جسم کی مانند ہونے  کی پُر تاثیر مثال سے واضح کیا ہے:

رسو ل ٱللَّٰه صلی ٱللَّٰه علیہ وسلم نے فرمایا تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کا معاملہ کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ لطف ونرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤگے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے ، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ۔ ایسی کہ نینداڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔16

امت مسلمہ کے اس عظیم اور منفرد مشن کی تکمیل   کے بارے میں قرآنی ارشادات  ہمیں ان مربوط اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جس کو ہم نے امیٹکس کا نام دیا ہے۔

امیٹکس کا آغاز امت کے اجتماعی وجود اور عمل کےلیے ایک نظریاتی سوچ فراہم کرنے سے ہوناچاہیے، جس کےلیے متعدد شعبوں میں منظم تحقیق اور مطالعے  کی ضرورت ہے۔

اسلامی سیاست کی درست نظریہ سازی،یعنی  السیاسۃ الشریعہ۔ ایسی سیاست  جو اسلامی اصولوں کی روح سے ہم آہنگ ہو، اسلامی روایت سے مستفاد ہو، اسی طرح  ماضی و حال کے بشری علوم سے بھی محتاط استفادہ کر کے ترتیب دی گئی ہو اور جس میں اسلامی تصورات کی غلط توجیہات کا شائبہ نہ ہو۔ اس لیے امیٹکس کو مقامی اور عالمی سطح پر ایسی پالیساں تشکیل دینے  اور ایسے اہداف کے حصول کےلیے کوشاں رہنے کی ضرورت ہے، جو مسلمانوں کےلیے بالخصوص اور عام انسانیت کےلیے بالعموم باعث خیر ہوں۔ اہل ایمان کی کامل یکجہتی میں بنیادی اہمیت مختلف خطوں میں پھیلے ، رنگارنگ  ثقافتوں کے حامل،  متعدد زبانیں بولنے والے، اور مختلف نظام ہاے انصرام  کے تحت رہنے والوں کے سیاسی اتحاد کو حاصل ہے، جس کےلیےضروری ہے کہ (متعلقہ عوامل کے مطابق) مسائل کے حل کےلیے ایک جامع اداراتی نظام کھڑا کیا جائے۔ اس زمن میں جدید طرز حکمرانی کےلیے نہایت عمدہ تکنیکی مہارت اور تجربہ کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار اور ان کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں مرتب ایک اخلاقی چارٹر اور ادارجاتی ماڈل بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ہمیں سیاست اور اسلامی اقدار کے تعلق کے بارے میں  عام طور پر رکھے جانے والے غیر معقول تصورات کی نفی کرنی چاہیے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ سیاست محض ٹکنوکریٹک فیصلوں کے علاوہ کوئی شے نہیں  (جیسے شاہراہوں پر رفتار کی حدود کا تعین یا پھر پانی کے نل لگانے کا کام وغیرہ)۔ دوسرا یہ کہ تمام حکومتی انتظام اخلاقیات پر مبنی  ہونا چاہیے، جسے مقدس صحائف یا قدیم تحریروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی، فن تعمیر، حلقہ بندی،بلدیہ، ماحولیاتی تحفظ سے لے کر دولت کی تقسیم، عوامی مفاد کو فروغ دینا، مقدس مقامات کا تحفظ، اور عوامی رسم و رواج  کا انتظام، دفاع اور خارجہ پالیسی، غرض یہ سب دینی اور اخلاقی جہتوں کی حامل  سرگرمیاں ہیں۔ ان میں ہر ایک عمل کو احسن طریقے سے انجام دینے کےلیے پختہ دینی علم   اور لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ  بین الاقومی امور سے بالعموم اور مسلمان خطوں کے مسائل سے بالخصوص آگاہی ہونی چاہیے۔ نیز مخصوص علاقوں، چھوٹے چھوٹےگاؤں اور قصبوں کے حالات اور روایات کا گہرا مقامی علم بھی بعینہ ضروری ہے۔ امیٹکس ڈسکورس ایسے علم کی ترویج اور حوصلہ افزائی کیلئے کوشاں ہے ۔

2 -ہمارا مقصد اسلام کے ” عوامی ” (community-centered) وژن  کا نفاذ ہے، اور یہ وژن خلافت کو ایک قابل مواخذہ (accountable)اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے والےادارےکے طور پر زندہ کرنے کےلیے کوشاں ہےاسی وژن کے مطابق اسلامی قانون اور اقدار سے ہم آہنگ اور عوامی کی فلاح کی ضامن ایک حکومت کی تشکیل مسلمان اہل علم  اور مختلف مکاتب فکر کے نزدیک اولین فریضہ ہے۔  چونکہ  مختلف ادوار میں خلافت کے ادارے میں کچھ غیر مثالی تبدیلیاں لائی گئیں،بعض اوقات طاقت اور دولت پرکچھ لوگوں نے تصرف حاصل کیا، جس کی وجہ سے اکثر اوقات بدعنوانی اور ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہی اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم خلافت کے ” عوامی ” (community-centered) وژن   کی طرف واپس لوٹیں، جو قرآن و سنت میں مذکور ہے اور جس پر خلفائے راشدین نے عمل کیا، اور اس مغالطے اور غلط فہمی سے باہر نکلیں (اس قسم کی نا امیدی کی قرآن میں بارہا نفی کی گئی ہے) کہ اب تو امت کے مقدر میں صرف زوال اور پستی ہے، اور اس سے نکلنے کےلیے کسی مسیح کا انتظار ضروری ہے۔اسی طرح ہم پر ماضی کی سیاسی نظاموں کی ہیئتوں  تک محدود رہنا بھی لازم نہیں۔ تاریخی طور پر خلافت کے ادارے نے مختلف صورتیں اختیار کیں۔17اور ماقابل جدید (premodern)حالات نے وسیع اور پھیلتے ہوئے رقبے کے اجتماعی انتظام کےلیے غیر معمولی مسائل پیدا کیے، جس  کی وجہ سے بہت سارے سمجھوتے کرنا پڑے۔ آج سیاسی ، تکنیکی اور سماجی میدانوں میں کلیدی پیش قدمیوں نے ہمیں ان میں سے بہت سے مسائل سے نمٹنے پر قادر کر دیا ہے  اور ایک بار پھر مسلمانوں  کواس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ارباب اختیار کو چن بھی سکیں اور ان کا سختی سے احتساب بھی کر سکیں ۔

3- ناانصافیوں اور عدم مساوات کو  منظم انداز  سے ختم کرنے کے ذریعے امت میں  اتحاد و اتفاق کےلیے ڈسکورس اورعمل  تشکیل دینا۔ یہ اتحاد صرف سیاسی نہیں بلکہ روحانی، سماجی اور اقتصادی سطح کی یکجہتی ہوگی، جو پیغمبرانہ مشن کا تقاضا بھی ہے، جس میں تمام مسلمان برابر ہیں اور افضلیت کی بنیاد صرف تقویٰ اور اہلیت ہے۔ جس  طرح حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا تھا کہ امت  کے اندر کمزوروں کو طاقتوروں سے بچانا اسلامی حکومت کی نمایاں ذمہ داری ہے۔ 18اس مقصد کے حصول کےلیے  کثیر الجہت اپروچ  تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔اس  میں مختلف علاقوں میں ہر سطح پر مسلم رائے عامہ کو ہموار کرنا،  باہمی کدورتوں اور عدم اعتماد کی وجوہات معلوم کرنا اور پھر ان کو اسلامی عقیدے اور تہذیب سے مشترکہ وابستگی کی بنیاد پر ختم کرنا شامل ہیں۔اسی طرح معاشی، گروہی  یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے بنیادی اسباب کو معلوم کرنا، اور انھیں صلح کے اسلامی اصولوں کے مطابق ختم کرنا۔ قوم پرستی، نسلی تفاخر، رنگ پرستی، نسل پرستی، غرض اس قسم کے امتیازات  پر مبنی تمام نظریات اور طرز عمل جو اسلامی میرٹ وکریسی (meritocracy)سے متصادم ہوں، جو وقت کے ساتھ ساتھ نئی صورتیں اختیار کرلیتی ہیں، مستقل طور پر ان کی کھوج لگا کرانکا خاتمہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں ، امیٹکس کےفکری اور سماجی  پہلو ابن خلدون کی فکری مشاہدات سے ماخوذ ہیں کہ انسانوں کے درمیان اختلاف کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ  انسان کی فطری جبلتوں سے مسلسل نئی چیزیں جنم لیتی ہیں، اس لیے  امیٹکس اصولی طور پر  ہمیں خیالی  دنیا  (جو ناقابل عمل ہو) کی بجائے اسلام  کے اصولی طریقوں سے مسلسل فیض یاب ہونے کی ترغیت دیتا ہے۔

4- ہم اس اسلامی ڈسکورس کو  کسی تسلط اورزبردستی  کے بجائے تنوع اور ہم آہنگی  کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہےکہ  امت میں موجود ناگزیر تنوع کا اعتراف کرنا  اور اسے تسلیم کرنا، اس کے ذرائع اور اسباب کا مطالعہ کرنا، ان اختلافات کا احترام کرنا جو انتشار کے باعث نہ ہوں اور ان اختلافات میں زیادہ سے زیادہ کمی لانا، جن کی بنیاد فرقہ وارانہ، سماجی، طبقاتی اور نسلی تقسیم ہو۔ یہ ہمیں اسلام کی وسیع حدود کے اندر موجود فقہی یا دیگر آرا ء میں اختلاف یا بحث سے منع نہیں کرتا۔ فرقہ وارانہ تصادم نے عیسائیت کو ایک سماجی قوت کے طور پر کمزور کرنے اور یورپ میں سیکولرازم کی راہ ہموار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اوراس طرز فکر و عمل سے  آج مسلم دنیا کو بھی اتنا ہی سنگین خطرہ ہے۔ نظریاتی اختلافات کے باب میں اسلامی تہذیب نے بعض کلیدی شعبوں میں رواداری کے غیر معمولی کامیاب نمونے دکھائےہیں، جیسے سنی فقہی مکاتب کی قانونی تکثیریت (legal pluralism)، اسی طرح شریعت نے غیر مسلم کمیونٹی کے تحفظ پر بھی بہت زور دیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اس باہمی رواداری اور بقائے باہمی کےلیے حق کی جستجواور دفاع سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اختلافات کو ان کے صحیح مقام پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں نہ صرف نظریاتی اعتبار سےصحیح اورغلط، اور سیاسی لحاظ سے اہم اور غیر اہم کے درمیان فرق کرنا شامل ہے، بلکہ یہ تسلیم کرنا بھی شامل ہے کہ وہ بنیادیں جو امت کو متحد کرتی ہیں، اگرچہ وہ تعداد میں کم ہوں گی لیکن پُر اثر ہوں گی ۔امیٹکس کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی کامیاب بقائے باہمی کے ذرائع تلاش کریں، انہیں مسلمانوں کی مشترکہ حکمت علمی  بنائیں،  اور ان کے احیا کے بنیادی لوازم کا تحفظ کریں۔

5- عالمی سطح پر مسلمانوں میں کمزوروں اور مظلوموں کو ترجیح دینا ، یہ عمل پیغمبرانہ استعارے کے مطابق  امت کو ایک جسم کی مانند بنانے کےلیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیےپہلا قدم یہ ہے کہ  ہم  کمزور مسلمانوں(مستضعفین، سورۃ النساء: 75) کی حالتِ زار معلوم کرنے اور اسلامی سرزمینوں اور مقدس مقامات کو درپیش موجودہ اور مستقبل کے خطرات کے وسیع اور منظم مطالعے کی ضرورت ہے ۔ فلسطین، کشمیر، مشرقی ترکستان اور روہنگیا جیسے اہم  خطوں کے تنازعات حل نہ ہونے میں اور مستقبل کی کوئی امید نظر نہ آنے میں بھی یہی عمل کار فرما ہے کہ ان کو خطوں  کو سیکولرائزڈ اور امت سے منقطع کرکے انہیں اپنے مقامی مسائل اور عصبیت میں جھونگ دیا گیا )اب یہ صرف اپنے تک محدود ہیں اور امت سے منقطع( ہے۔ اسی وجہ سے یہ عدم توجہی کا شکار ہیں۔  ایسے تمام معاملات، ان کے اصل اسباب اور تاریخ اور ان کے حل پر گفتگو کو ہر جگہ مسلمانوں کی روزمرہ کی خبروں اور گفتگو کا حصہ بننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم محسوس کریں، منصوبہ بندی کریں  اور ان مسائل کا حل تلاش کریں، جیسا کہ رسول ٱللَّٰه صلی ٱللَّٰه علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے۔

6- بنیادی اقتصادی، سماجی، ماحولیاتی، تکنیکی چیلنجز پر ڈسکورس تشکیل دینا، جو ایک متحد اور خوشحال مسلم دنیا کے وژن کے لیےضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں سے نمٹنا، مصنوعی ذہانت جیسی ایجادات کے پیدا کردہ مواقع سے فائدہ اٹھانا، اور یہ بتانا کہ کس طرح سود سے پاک معیشت جیسے  اسلامی پیراڈائم ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ مفید اور بار آور ثابت ہوسکتے ہیں۔

7- پوری دنیا کے ساتھ امیٹک تعلقات منظم کرنے کے لیے، اسلام کی دعوت دینے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے ذریعے مختلف تہذیبوں اور ممالک کے بقائے باہمی کی جستجو اور مشترکہ مادی، ماحولیاتی اور انسانیت کو درپیش دیگر چیلنجز کو حل کرنا۔

 

نتیجہ: پہلا قدم نصیحہ

کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ آخر یہ سارے کام کون کرے گا؟  کیا یہ تمام کام ریاست جیسے طاقت ور ادارے کے کرنے کے نہیں؟

مسلمانوں کی نمائدندگی کرنے والی ایک موثر حکومت جواب دہی کے احساس کے ساتھ امت کے تحفظ کےلیے ضروری ہے، اور یہ بذات خود ایک  دینی فریضہ ہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ، مسلمانوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے اور ان کے دفاع کےلیے سیاسی طاقت نہایت ضروری ہے۔  تاہم ان سب افعال کو انجام دینے لیے محض طاقت  کی شرط کافی نہیں اور نہ اس سے تبدیلی آسکتی ہے۔

نبوی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقائد اور اعمال کی درستی سے آغاز کیا جائے۔  ذرا تصور کیجیے اگر خلافت کسی ظالم، غافل یا مفاد پرست آدمی یا گروہ کے ہاتھ میں آجائے تو کوئی شائبہ نہیں کہ وہ غیروں کے ہاتھوں بک جائے ۔ اسی طرح نیک حکمران، صالح علما اور روحانی پیشوا بھی طاقت کا غلط استعمال کرسکتے ہیں اگر برقت ان کا محاسبہ نہ کیا جائے۔ اس لیے یہ ایک واضح امر ہے کہ اچھے نظامِ حکومت کےلیے مضبوط ادارے اور بطور امت متحرک ہونا دونوں ضروری ہیں۔ امت کو اپنے قائدین، علمائے کرام، حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر عام مسلمانوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے اپنا حق مانگنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جیسا کہ رسول ٱللَّٰه صلی ٱللَّٰه علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین سچے دل سے ٱللَّٰه کی فرماں برداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا نام ہے“ ۔19 سچائی اور فرض شناسی نصیحہ میں  پنہاں ہے ،   انفرادی حقوق کے سیکولر اور لبرل تصور میں نہیں، امت کے حقوق اور فرائض کی تشکیل کےلیے مناسب فریم ورک نصیحہ کا ہے۔رسول ٱللَّٰه نے اپنی نوخیز امت اس نصیحہ کےذریعے تیار کی ،اس کے بعد اس کو مدینہ میں اقتدار دیا گیا۔اس مغالطے میں پڑے بغیر کہ بہتر حکمرانی کرنے سے  پہلے ہم سب کو بالکل نیک بن جانا چاہیے، ہماری درمیانی پوزیشن ایک بامقصد، فکری اور سماجی سیاسی ڈسکورس اور عمل کی ضرورت پر زور دیتی ہے جسکا مقصد طاقت کا درست استعال ہو لیکن جو صرف اس طاقت کو برقرار رکھنے کا خواہاں نہ ہو بلکہ ضرورت پڑنے پر اس طاقت کا احتساب کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔

یاد رکھیں کہ خلافت کے وجود سے قطع نظر امیٹکس بطور ڈسکورس بھی بہت ضروری ہے،جس طرح صالحین کی جماعت وجود میں آنے سے پہلے اور بعد  فقہ اور عقیدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ اگر کل عالمی خلافت وجود میں آجائے تو ہم کسی امیٹکس ڈرسکورس کے محتاج نہیں ہوں گے، ہمارے پاس ایک ڈسکورس پہلے سے موجود ہوگا۔

یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے کہ وہ اس امیٹکس کےعلم اورعمل کو فروغ دیں؟  یہ کسی ایک فرد یا اادارے کا  فریضہ نہیں بلکہ یہ  ان تمام لوگوں کا فریضہ ہے جن کے پاس امت کی بھلائی کےلیے وسائل ہیں۔ ہمارے ذمہ داری بھی ہمیں میسر وسائل کے عین مطابق ہے۔  موجودہ دور میں جہاں کچھ مسلمان وسائل سے مالا مال ہیں وہیں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایسے صورت میں بہر حال اس چیلنج سے نمٹنے کا فرض ان کاندھوں پر زیادہ ہے جنہیں قدرت نے وسائل سے مالا مال کیا ہے ۔

ہم امیٹکس کو ایک ایسے تصور کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو ڈسکورس، علمی حلقوں اور عالمی سطح پر عام مسلمانوں کو منظم انداز میں ان چیلنجز سے نمٹنے پر آمادہ کرسکے۔  امیٹکس انسٹی ٹیوٹ  اسی مقصد کےلیے وجود میں لایا گیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اسی غایت اور مقصد کے تحت اٹھائے گئے ہمارے اقدامات امیٹک فکر و عمل کی ترویج اور تقویت کا موجب بنیں گے۔

 

Notes

  1. امیٹکس کی اصطلاح کم و بیش امت کے تصور کےلیے  گاہے گاہے  انگریزی میں لکھنےوالے مسلمان اہل قلم استعمال کرتے رہے ہیں، اگرچہ میں نے اس اصطلاح کو اس طرح  مکمل نظریےکی صورت میں نہیں دیکھا ، جس  طرح کی کوشش ہم نے اس مضمون میں کی ہے۔ مثال کے طور دیکھیے:

    Ataullah Siddiqui, “Ismail Raji al-Faruqi: From ʿUrubah to Ummatic Concerns,” American Journal of Islamic Social Sciences 16, no.3 (1999): 1-26; and Masudul Alam Choudhury, The Islamic World-System: A Study in Polity-Market Interaction (London: Routledge, 2005)

    ان میں سے کسی بھی مصنف نے اس تصور کو اس کے صفتی اطلاق سے آگے نہیں دیکھا۔

  2. اگرچہ ‘سیاست’ وسیع تناظر میں کسی گروہ کے معاملات کے انتظام کو کہتے ہیں، یہ تصور ایک بنیادی معیاری ساخت کا حامل ہے۔ ارسطو کے نزدیک پولس دیگر قدم یونانی شہروں سے مختلف تصور تھا۔ پولس کے برعکس دیگر یونانی شہروں پر ان کی جمہوری ساخت کے سبب بادشاہ یا  یا امراء حکومت کرتے تھے، جس نے ایک اعلیٰ اخلاقی زندگی کو جنم (عام گھریلوں زندگی سے بالاتر) دینے کے ساتھ ساتھ ایک ارفع سیاسی کمیونٹی کو جنم دیا۔ اس کے برعکس جدید سیکولر قومی ریاست بے رحم عقلیت کی پروردہ مادی مفادات سے آگے کچھ بھی نہیں۔
  3. یہ تعریف الماوردی نے پیش کی ہے لیکن اس موضوع کو تقریباً تمام قدیم  اور بڑے مصنفین نے مختلف انداز میں دہرایا ہے۔ الماوردی لکھتے ہیں: ’’ٱللَّٰه تعالیٰ نے امت کے لیے ایک ایسا رہنما مبعوث کیا ہے جس کی حیثیت رسول ٱللَّٰهﷺکے جانشین کےہے، اور اسے امت کے امورکے منتظم ہونے کا اختیار دیا۔‘‘(الاحکام السلطانیہ، تخریج:احمد جد (قاہرہ: دار الحدیث، 1427/2006)، 13)۔ اس کے آگے وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”امامت کورسول کی جانشینی کے طور پر دین کی حفاظت اور دنیاوی امور کے انتظام کا ذریعہ قرار دیا۔ مزید تفصیل کےلیے میرا مقالہ دیکھیے:

    “Who Wants the Caliphate?”, Yaqeen Institute, 2019, https://yaqeeninstitute.org/read/paper/who-wants-the-caliphate

    اس باب میں ماوردی کے علمی اور فکری کام کی مزید تحقیق کےلیے دیکھیے:

    Ovamir Anjum, Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Taymiyyan Moment (Cambridge, UK: Cambridge University Press, 2012). 117-121.

  4. لفظ امہ کے معنی و مفہوم کی تفصیلی بحث کےلیے دیکھیے: اسحاق بن عبد ٱللَّٰه السعدی، دراسات في تميز الأمة الإسلامية وموقف المستشرقين منه (دوحہ، قطر: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية ،1434ھ/2013ء)، 61-107؛ اس کا خلاصہ صفحہ 104 پر دیکھیے۔
  5. اہل سنت کے نزدیک خلیفہ اور امام سے مراد ایک ہی ہے، جبکہ اہل تشیع کے نزدیک اصل اصطلاح امام ہے اور ان کےلیے اس کی اعتقادی اہمیت بہت گہری ہے۔
  6. مسلم دنیا میں قومی ریاست کے ماڈل کی ناکامی پر مزید تفصیل کےلیے دیکھیے:

    Joseph Kaminski, “Irredeemable Failure: The Nation-State as a Nullifier of Ummatic Unity”, Ummatics, Dec 14, 2022,  https://ummatics.org/papers/irredeemable-failure-the-modern-nation-state-as-a-nullifier-of-ummatic-unity/

    عرب بہار میں بعض علما میں معاونت  پر مزید تفصیل کےلیے دیکھیے: اسامہ الاعظمی، The Ulama Between Democracy and Autocracy (لندن: سی ہرسٹ اینڈ کمپنی، 2021ء؛ اور نیویارک: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2022ء)۔  مسلمان اہل علم اور مصلحین پر اکثریتی مسلمان قومی ریاستوں میں جبر اور ظلم کی داستانوں سے  علمی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ایک قابل ذکر کتاب یہ ہے:  ایا البغدادی اور احمد غتناش، The Middle East Crisis Factory: Tyranny, Resilience and Resistance (لندن: سی ہرسٹ اینڈ کمپنی، 2021ء)۔  ایک حالیہ بشریاتی مطالعے کےلیے دیکھیے: پاسکل مینورٹ، Graveyard of Clerics: Everyday Activism in Saudi Arabia (سٹینفورڈ: سٹینفورڈ یونیورسٹی پریس، 2020ء)۔ عرب ریاستوں کی اپنے عوام  کے خلاف ان کی کمزور جوازِ حکومت وجہ سے ہونے والے تشدد کے بارے میں ایک قدرے پرانی لیکن ابھی بھی متعلق اور بصیرت افروز تحقیق کےلیے دیکھیے: نازیہ این ایوبی، Over-Stating the Arab State: Politics and Society in the Middle East  (لندن: آئی بی ٹورس، 1995ء)۔

  7. “امت وسط” سے مراد درمیانی (اعتدال پر مبنی توازن) یا بہترین (chosen) گروہ ہے۔ یہ دونوں معنی قدیم مفسرین نے ذکر کیے ہیں۔ علامہ طاہر ابن عاشور (متوفی 1393ھ) اپنی تفسیر التحریر والتنویر میں                    اس آیت کی ذیل میں مذکورہ دونوں معنی کی تائید میں متداول تفاسیر کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “یہ آیت مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے کیوں کہ ٱللَّٰه تعالیٰ نے ان کو بہترین (وسط) امت کے لقب سے نوازا ہے اور انھیں قانون الٰہی سمجھنےاورسمجھانے کے ذرائع سے آراستہ کر کے ان کے ذہنوں کو دوسری قوموں کے برعکس گمراہی کے عادی ہونے سے بچایا ہے۔ امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں: “اس کے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ  وہ دین میں افراط و تفریط اور تشدد و تساہل  کے درمیان اعتدال پر قائم ہیں ۔”
  8. “شھداء علی الناس” کا لغوی ترجمہ”انسانوں پر گواہ ہونا” ہے لیکن  محاورتاً “گواہ ہونا” سے مراد “داعی اور مربی” زیادہ بہتر اور مناسب لگتا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر محمد السمرقندی (م: 373ھ) نے اپنی تفسیر بحرالعلوم میں کی ہے:”شہادہ سے مراد واضح ثبوت ہے کیوں کہ یہ عدالت میں مدعی کےحق کو واضح کرتا ہے، لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم سب ]امت محمدیﷺلوگوں پر[ واضح کریں]اور اس کے ذریعے خدا کے حق کوواضح کریں[ان لوگوں پر جو]قرآن نازل ہونے  [بعد میں آئے ہیں، جس طرح رسول ٱللَّٰه ﷺ نے آپ لوگوں پر واضح کیا ہے۔”اس تفصیل کا حوالہ جمال الدین القاسمی (متوفی 1332/1914)نے محسن التاویل، سورۃ البقرہ آیت 143 کی ذیل میں دیا ہے۔(https://furqan.co/mahasin-altaweel/2/143).۔
  9. یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ خطاب پوری امت کو ہے ۔ جہاں تک “خیر امہ”کے معنی  کا تعلق ہے، تو امام ابو جعفر الطبری (متوفی 310ھ)  مختلف متراکب آرا  نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: “بہترین  رائے حسن بصری (متوفی 220ھ) کی ہے، “]ہم چنی ہوئی قوموں[ میں سے آخری ہیں اور ٱللَّٰه کے نزدیک ہم سب سے افضل ہیں۔” امام طبری اس کی وجہ بتاتے  ہیں کہ ہم اس لیے افضل ہیں کیوں کہ صحیح حدیث میں ہے کہ “تم ستر امتوں کے بعد آئی ہوئی امت ہو، تم خدا کے نزدیک ان سب میں سے زیادہ معزز اور بہترین ہو۔ (امام احمد بن حنبل اور بعض دیگر حضرات نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے؛ https://furqan.co/tabari/3/110 )۔ امام قرطبی(متوفی 671ھ) ابن عباس رضی ٱللَّٰه عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ “بہترین امت” سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور بدر اور حدیبیہ کے غزوات میں شریک ہوئے”اور حضرت عمر کے اس قول کے مطابق کہ “جنھوں نے ان ]صحابہ [کا اتباع کیا، وہ بھی انھیں میں سے ہیں۔”(دیکھیے: https://furqan.co/qurtubi/3/110) )۔ ابن کثیر (متوفی 773ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: “درست رائے یہ ہے کہ آیت سے مراد پوری امت ہے، اور  [اور امت کو دی گئی افضلیت کے مطابق امت] کی ہر نسل مراد ہے ۔” مذکورہ تمام حضرات اس اس بات پر متفق ہیں کہ “خیر امت (بہترین امت)” سے مراد  نہ صرف یہ ہے کہ یہ بذات خود بہترین ہے بلکہ تمام انسانیت کےلیے بھی بہترین ہیں، یہ پوری انسانیت کےلیے مفید ہے۔ مزید براں اس امت کی عزت و شرف  کی وجہ یہ ہے کہ یہ امت خدا کے دیے ہوئے احکام کی بجا آوری کرتے ہوئےاچھائی کی طرف دعوت دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے۔ https://furqan.co/ibn-katheer/3/110).
  10. ابو جعفر الطبری (متوفی 310ھ) “ٱللَّٰه کی رسی” کے تین متراکب معنی بیان کرتے ہیں: پہلا، مومنین کی متحد جماعت (جماعہ)، دوسرا، خالص توحید  کا عقیدہ، اور تیسرا، ٱللَّٰه اور مومنوں کے درمیان قرآن اور قرآنی عہد (آیت 3:103 کے تحت دیکھیں: https://furqan.co/tabari/3/103).) القرطبی پہلے معنی کی تائید کرتے ہیں ، یعنی متحد جماعت۔ (https://furqan.co/qurtubi/3/103)، جبکہ ابن کثیر اور النصفی (متوفی 710ھ) آخری قول کی تائید کرتے ہیں کہ اس کا بنیادی معنی قرآن ہے (https://furqan.co/ibn-katheer/3/103)۔ ابن عاشور “پوری، متحد امت” کے معنی کو خدا کی رسی کے طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے  رسی کے زرخیز استعارے میں تینوں معنی کو یکجاہوجاتے ہیں: “مقصد یہ ہے کہ پوری امت کو اطاعت کا حکم دیا گیا، جس میں لازمی طور پر ہر فرد کو اس مذہب پر قائم رہنے کا حکم شامل ہے۔” (دیکھیں اس آیت کی  ذیل میں https://furqan.co/ibn-aashoor/3/103)۔
  11. تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت کے مصداق اہل کتاب ہیں۔ (دیکھئے ذیل میں 3:105، https://furqan.co/tabari/3/105)۔
  12. تمام قدیم مفسرین اس کےیہی معنی بتاتے ہیں کہ تمام  اہل ایمان ان دو شہادتوں کے مطابق بھائیوں اور بہنوں جیسے ہیں، حالانکہ قانون شریعت  کی رو  سے خونی رشتوں کے مخصوص احکام ہیں، “ٱللَّٰه کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں” (سورۃ الانفال: 75؛ سورۃ الاحزاب: 6) لیکن وراثت   اور نکاح وغیرہ کے ان اصولوں کے ہوتے ہوئے بھی، محبت و مودت کے لحاظ سے دینی رشتہ زیادہ مضبوط ہوسکتا ہے۔ امام قرطبی  نے ایک عمدہ بات لکھی ہے ، “دین میں بھائی چارہ خون سے زیادہ مضبوط ہے، کیوں کہ  مذہب میں اختلاف خون کے رشتے کو توڑ دیتا ہے [جیسا کہ وراثت کے اصول میں]، لیکن نسب میں فرق مذہب میں بھائی چارے کو نہیں توڑتا۔ سورۃالحجرات: 10 کے تحت دیکھیے: https://furqan.co/qurtubi/49/10)۔ ابن عاشور فرماتے ہیں کہ ایمانی تعلق کا یہ بھائی چارہ قرآن او سنت کا مستقل اسلوب ہے، جیسے سورۃ الحشر: 10 کے تحت دیکھیے۔
  13. امام رازی سورۃ الانفال: 73 اور اس سے پچھلی آیت  کے مفہوم کا خلاصۃ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الانفال آیت 72 تین گروہوں کو مخاطب کرتی ہے،  مکہ کے مہاجرین اور مدینہ میں ان کے میزبان اور انصار، جو ایک دوسرے کے مکمل حلیف ہیں۔ دوسرا گروہ ان مومنوں پر مشتمل ہے جو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے حکم کی تعمیل میں ناکام رہے (خواہ مرضی سے ہو یا بغیر مرضی کے)، انہیں مومن تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ولایہ(ولی ہونے) کے فائدے کے بغیر؛ پھر بھی اگر وہ دین میں مدد چاہیں تو اہل ایمان کو ان کی مدد کرنی چاہیے لیکن ان کی امداد مسلمانوں کے ]غیر مسلموں کے ساتھ[معاہدات  پر منحصر ہے جن  کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ آخر میں غیر مسلموں کے ساتھ ہر قسم کے  اتحاد کو منقطع کرنا چاہیے۔ آیت 73 میں اعلان کے مطابق غیر مسلم  ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر اہل ایمان بھی ایسا نہیں کریں گے تو بڑے فساد اور فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے (https://furqan.co/alrazi/8/73)۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں خطرہ صرف سیاسی نہیں ہے بلکہ ایمان کی سالمیت بلکہ اسلام کی دعوت اور  غلبے کا بھی ہے۔ ولایت کے صحیح معنی کے بارے میں، امام طبری ، امام قرطبی،  امام ابن کثیر اور دیگرقدیم مفسرین نے ولایت  کے دو معنی بیان کیے ہیں، امام طبری کے نزدیک ولایہ کا  واضح مطلب   تناصر ہے، جس سے مراد سیاسی اور عسکری حفاظت اور مدد ہے۔ دوسرے مفہوم کے مطابق اس سے مراد سماجی تعلقات،جیسے وراثت اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نکاح ،اس مفہوم کی تصدیق دوسری آیات کریمہ سے کی جاسکتی ہے لیکن یہاں ایک سرسری اشارہ کیا گیا ہے۔ (https://furqan.co/tabari/8/73)۔ ابن عاشور مزید فرماتے ہیں کہ”اس کا مقصد اسلامی اتحاد بنانا ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب مسلمان ایک مٹھی کی طرح متحد ہو جائیں اور ہر اس کام سے اجتناب کریں جس سے اس اتحاد میں خلل واقع ہوسکتا ہو۔ (https://furqan.co/ibn-aashoor/8/73)۔
  14. قدیم مفسرین اس آیت کو ان آیات میں شامل کرتے ہیں، جن سے امت کی عصمۃ (الوہی تحفظ) ثابت ہوتی ہے، کیوں  ٱللَّٰه نے پوری امت کو اپنا گواہ مقرر کیا ہے،  اور یہ امر  ان چیزوںیں  پوری امت مسلمہ کی راست بازی کی ضمانت دیتا ہے ،جو ٱللَّٰه نے نے نازل فرمائی ہے۔ اس آیت کی ذیل میں درج ذیل تفاسیر دیکھیے: طبری، قرطبی، زاری، نصفی اورابن کثیر۔ گذشتہ صفحات میں ان تمام تفاسیر کے حوالے درج ہیں۔
  15. متفق علیہ بخاری 6011، مسلم 2586۔
  16. خلافت جن چار (یا اگر مختصر مدت کی آئینی عثؐمانی خلافاء کو شامل کیا جائے تو پانچ) تاریخی مراحل سے گزری ہے اس کی تفصیل کےلیے میرا مقالہ”Who Wants the Caliphate?” دیکھیے۔
  17. ابن ہشام (متوفی 213ھ)، السیرۃ النبویہ، ایڈیشن۔ مصحف الصقاء وغیرہ، 6 جلد۔ (مطبع مصحف البابی الحلبی، 1375/1955)، 2: 660-661۔
  18. صحیح مسلم، 55۔

Discover more

Ummatics Institute’s Seminar on Ummatic Political Analysis (SUPA) – Copy

May 1, 2024
Ummatics Institute

Call For Mentee and Mentor Applicants | Ummatics Mentorship Program

April 27, 2024
Ummatics Institute

Ummatics Conference 2024: Towards an Ummatic Future

April 8, 2024
Ummatics Institute

Search

Search

Navigate

Search

Sign up to our Newsletter